گلشن میں بو ہوگی تو سراپا ہو گا اگر
کھلیں گی بستیاں ہمیں بساپا ہو گا اگر
زندگی ہے کیا؟ اُس کی عرصہ گردی میں موت
کچھ نہیں آتا، وقت خود کا تھا، کچھ نہیں آتا
یہ محبت اور بھی جگری دشمن ہوگئی
رگوں میں خوں گرمی، جسم میں جرسوں کی بہتی ہے
بچوں کی طرح تھک جائیں گے ہم بھی
اک روز تُو، ہم بھی بے زندگی کی شروعات کریں گے
ہم موت سے کیسے دوچار کریں گے
ہمیں اور مروں کا جہاں، کچھ اور چاہئے
great
ReplyDelete